عجب اک پردہ حائل ہے جو سرکایا نہیں جاتا بہت سیدھی سی باتوں کو بھی سمجھایا نہیں جاتا کبھی یہ ناز تھا خود پر کہ میرِ کارواں ہم ہیں لُٹے پھر قافلے ایسے کہ اترایا نہیں جاتا بہت وعدے ہوئے ہم سے ، مداوا لازمی ہو گا مگر ہے وقت ایسا قرض لوٹایا نہیں جاتا بہاریں جب نہیں اپنی تو پھر کیا آرزو رکھنا یہ گلشن مانگے کی خوشبو سے مہکایا نہیں جاتا نجانے کیوں سبھی رشتے ہوئے جاتے ہیں اب لاغر کہ دوری دو قدم کی ہو مگر آیا نہیں جاتا کسی سے مشورہ کیسا کسی سے پوچھنا کیا اب ہنر ایسا محبت ہے جو بتلایا نہیں جاتا مرے صیّاد سے کہہ دو اسامہ, نہیں اب لوٹنا ممکن سمندر میں گرے قطرے کو پھر پایا نہیں جاتا اب آگے ڈھونڈتے ہو کیا، مجھے تم اس کہانی میں میں وہ کردار جو انجام تک لایا نہیں جاتا کہیں گے کیا مجھے اپنے ، کہے گا یہ زمانہ کیا ہو 'اسامہ' سچ اگر لکھنا, تو گھبرایا نہیں جاتا. ضرور دیتا ہے ڈھیل اللّه ظالم کو لیکن, پکڑ میں کون کب آ جائے اللّہ کی, یہ کوئی نہیں جانتا. ...... اسامہ......

Comments